ایک نئے مطالعے سے پتا چلا ہے کہ ہر دس اموات میں سے ایک کی وجہ سگریٹ نوشی
ہوتی ہے اور ان مرنے والوں میں سے نصف کا تعلق صرف چار ممالک چین، انڈیا
امریکہ اور روس سے ہے۔ مطالعے میں تنبیہہ کی گئی ہے کہ دہائیوں سے جاری
تمباکو نوشی پر کنٹرول کی پالیسیز کے باوجود آبادی میں تمباکو نوشوں کی
تعداد میں بڑی حد تک اضافہ ہوا ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ شرح اموات میں
مزید اضافہ ہو سکتا ہے کیونکہ تمباکو سازی کی کمپنیاں ترقی پذیر ممالک میں
اپنا کاروبار بڑھا رہی ہیں۔ مطالعے میں شامل سینیئر محقق ڈاکٹر ایمینوئلا
گاکیدو کا کہنا ہے کہ نصف صدی سے زائد عرصے سے تمباکو کے صحت پر برے
اثرات کے شبہات کے باوجود آک شنیا کا ہر چوتھا شخص تمباکو نوش ہے۔
ان کے بقول تمباکو نوشی اب بھی جلد اموات اور معذوری کی دوسری بڑی
وجہ ہے اور اس کے اثرات کو کم کرنے کے لیے ہمیں تمباکو نوشی پر قابو پانے
کی کوششوں میں شدت لانا ہوگی۔ دی گلوبل برڈن آف ڈیزیزز نامی اس رپورٹ
میں 195 ممالک اور ریاستوں میں 1990 سے 2015 کے درمیان لوگوں کی تمباکو
نوشی کی عادات کا جائزہ لیا
گیا۔ تحقیق میں پتا چلا کہ سنہ 2015 کے دوران
ایک ارب کے قریب لوگ روزانہ تمباکو نوشی کرتے تھے۔ ہر چار میں سے ایک مرد
اور ہر 20 میں سے ایک عورت تمباکو نوش ہے۔ یہ تعداد سنہ 1990 کے مقابلے میں
کم ہے جب ہر تیسرا شخص جبکہ ہر بارہویں عورت تمباکو نوشی کرتی تھی۔ تاہم
مجموعی آبادی میں تمباکو نوشوں کی تعداد بڑھی ہے جو سنہ 1990 میں 87 کروڑ
تھی۔ تمباکو نوشی سے جڑی اموات سنہ 2015 میں 64 لاکھ رہیں جو 4.7 فیصد
زیادہ ہیں۔
مطالعے کے مطابق بعض ممالک لوگوں سے تمباکو نوشی چھڑوانے میں کامیاب بھی
ہوئے جس کی وجہ تمباکو کی مصنوعات پر اضافی ٹیکس، پیکٹس پر تنبیہہ اور آگہی
پروگرامز ہیں۔ 25 سال کے عرصے میں برازیل میں یومیہ سگریٹ نوشوں کی تعداد
کا تناسب مردوں میں 29 فیصد سے کم ہو کر 12 فیصد ہوگیا۔ جبکہ خواتین میں 19
فیصد سے آٹھ فیصد پر آیا۔ تاہم رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش، انڈونیشیا اور
فلپائن میں سنہ 1990 سے 2015 کے درمیان کوئئ تبدیلی نہیں آئی۔ محققین نے
خبردار کیا ہے کہ روس میں خواتین کی تمباکو نوشی میں چار فیصد اضافہ ہوا ہے
اور ایسے ہی رجحان افریقہ میں بھی دیکھے گئے۔